ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

ساخت وبلاگ
صحابہ کرامؓ اور "سُقْرَاط" کیا صحابہ کرامؓ کے بارے میں "سُقْرَاط" کچھ پوچھ سکتا ہے؟نذر حافیصحابہ کرامؓ کا تقدس قرآن مجید کا طے شُدہ ہے۔ البتہ ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ اس طے شُدہ تقدس کو سمجھنے کا حق ہر مسلمان کو ہے یا نہیں؟ سمجھنے اور ٹھونسنے کا عمل کبھی بھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ جس دین کے پیروکاروں میں سمجھنے کے بجائے ٹھونسے اور رٹنے کا رواج اور ثواب ہو۔۔۔ کیا اُس کے پیروکار دیگر اقوام کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکتے ہیں؟؟؟؟وقتِ آخرسقراط نے جلاد سے زہر کا جام مانگا۔ جلادنے کہا ابھی سورج کی کرنیں سامنے والے ریت کے ٹیلے پر نہیں پڑیں۔ ابھی وہ کچھ دیر مزید جی سکتا ہے۔ اُس کی رائے تھی کہ پہلے جتنے بھی لوگوں کو سزا دی گئی وہ اس فرصت میں زیادہ سے زیادہ کھانے پینے اور لطف اٹھانے کی کوشش کرتے تھے، سوہ وہ بھی ایسا کرے۔ سقراط نے کہا کہ ایسا کرنے والوں کا خیال تھا کہ زندگی بس یہیں ختم ہو رہی ہے لہذا وہ یہی کچھ کرتے تھے لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے تین سو سال پہلے کی بات ہے۔ سقراط پر لوگوں کے بچوں کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔ سقراط کی وجہ سے اُس زمانے کی نئی نسل ، بابوں کی کہانیوں کے سحر سے نکلتی جا رہی تھی۔کہانیوں کے نشے میں بھی عجب طاقت ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم کہانیوں کی عادی ہو جائے تو اُسے بیدار کرنے کا انجام ہر دور میں سقراط جیسا ﴿قتل، جلسے جلوس، اورتحریر و تقریر پر پابندی﴾ہی نکلتا ہے۔سقراط کا کہنا تھا کہ اخلاق، عدالت، وطن پرستی، اور قانون کی اطاعت یہ سب کہانیاں نہیں ہیں، انہیں عملاً معاشرے میں دکھاو۔یہ درست ہے کہ اگر قوانین عقل اور دانش کے مطابق ہوں تو جو شخص بھی ان قوانین پر عمل کرے گا وہ کامیابی اور فلاح و بہبود کو پائے گا لیکن اگر حکومت خود عقل او ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 30 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35


1. فکری یکسوئی

2. اجتماعی مسائل

3. مقالہ جات

4. افہام و تفہیم

5. معقول بیانیہ

6. دین اور انسان

7. علمی مذاکرہ

8. نقد و نظر

9. نظریاتی تعامل

10. جذبات و احساسات

پیغامِ اقبال

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 27 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35

قرآنی شعورِ انقلاب | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات قرآنی شعور انقلابعلمی نقداشرف سراج گلتریعلامہ عبیداللہ سندھی کی کتاب "قرآنی شعور انقلاب" کا بندہ حقیر نے تاتفسیر سورہ حشراجمالی مطالعہ کیا ہے۔ اس کے بعد چند ملاحظات پیش کررہاہوں۔کتاب زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے پوری کتاب کا مطالعہ ممکن نہ ہوسکا۔ مصنّف کے حوالے سے کلی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صاحب کتاب تحلیلی صلاحیت بہت اچھی ہے۔ اگرچہ کتاب کے بعض مطالب سے اختلاف کا حق قارئین اپنی جگہ محفوظ رکھتے ہیں۔ فی الحال علمی نقد کی خاطر گیارہ نکات کو میں بیان کئے دیتا ہوں۔جناب سندھی صاحب نے بعض مقامات پر حقائق سے چشم پوشی کی ہے ۔مثلا:۱۔صلح حدیبیہ میں ،حضرت عمر کا سفیر بننے سے انکار، پھر صلح کے بعد اس صلح پر حضرت عمر کا شدید اعتراض ، اس کا تجزیہ و تحلیل تو دور کی بات ذکر بھی نہیں کیا گیا۔۳۔ذوالقربیٰ کی تفسیر میں سنّتِ رسولؐ اور حادیثِ رسول ؐکی قطعی مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت اس حد تک ہے کہ اہلِ بیت ؑ کو ذوالقربی سے نکال دیا گیا۔۳۔باغ فدک جو فئے میں رسول اللہ کی ملکیت میں آیاتھا ، اور رسول اللہ نے جناب سیدہ کوہبہ کیاتھا۔ اسے خمس کہا ہے حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ باغِ فدک اصلاً خمس نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کے بیت المال سے بطورِ خمس بی بی ؑ کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ رسولؐ نے اپنی ملکیّت سے اپنی بیٹی ؑکو دیا تھا۔۴۔ محترم مصنّف نے باغِ فدک کےمسئلے کو بنی ہاشم کامسئلہ قرار دیاہے،اور جناب سیدہ کے دعوے کو بنی ہاشم کی ترجمانی بتایاہے، جبکہ بنی ہاشم کا باغ فدک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۵۔ بنی ہاشم نے خمس کی بنا پر کبھی باغِ فدک کا مطالبہ نہیں کیا۔۶۔ جناب سیدہ نے باغ فدک پر دعوا کیاتھا کہ یہ باغ رسول اللہؐ نے مجھے ہبہ کیا تھا اور یہ رسول ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 62 تاريخ : دوشنبه 25 دی 1402 ساعت: 12:35

شہدا مکتب میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟ایم اے راجپوتیہ ۴جنوری ۲۰۲۴ کی بات ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے نماز مغربین کے بعد مدرسہ حجتیہ کے شہید مطہری کانفرنس ہال میں تکریم شہدا کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس شہید قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی مناسبت سے تھی۔ جمعرات کی شب ہونے اور حرمِ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے کانفرنس کو چار چاند لگ گئے تھے۔کانفرنس کی اہمیّت کے باعث کانفرنس ہال کی کرسیاں کم پڑ گئیں جو کہ حوزہ علمیہ قم کے طلبا کی شہید سلیمانی سے والہانہ عشق و محبت کی علامت ہے۔اس عظیم الشّان کانفرنس پر میرے قلم اٹھانے کی وجہ اس کانفرنس کے خصوصی خطیب﴿ قم میں مقیم بحرینی طلاب کے حوزہ علمیہ کے سربراہ جناب حجت الاسلام والمسلمين آقای عبد اللہ دقاق حفظہ اللہ ﴾ کی طرف سے بیان کئے گئے وہ نکات ہیں جو انہوں نے ایک شہید کو مکتب میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ شہید شہادت سے پہلے فقط ایک فرد اور محض ایک شخص ہوتا ہے۔لیکن شہادت کے بعد وہ ایک مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔لیکن یہ تبدیلی کیسے واقع ہوتی ہے؟آقای دقاق نے یہ سوال اٹھانے کے بعد فرمایا: شہید ایک شخص سے مکتب میں خود بخود تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ شہید کے شخص سے مکتب میں تبدیل ہونے کیلئے شہید کے ورثاء ، شہید کی قوم ، شہید کے پیروکاروں اور شہید کے محبّوں کو کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جن کے بعد شہید ایک شخص سے مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ان اقدامات میں سے پانچ اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔۱۔ شہید کے ذکر کو زندہ رکھتے ہوئے اس کے افکار، سوچ،نظریات،اقوال اور میدان عمل میں حضور کی نشرو اشاعت اور اسے مختلف طریقوں سے آئندہ نسلوں تک پہنچانا۔۲۔پہلے اقدام میں بیان شدہ نکات کی نشرو اشاعت اور انہی ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 37 تاريخ : يکشنبه 17 دی 1402 ساعت: 14:37

تکریم شہداء کانفرنس۔۔۔ہم بھی وہیں موجود تھےرپورٹ:منظوم ولایتیآج چھ جنوری ہے۔ یہ دن ہمارے ملی شہید اور قومی ہیرو اعتزاز حسن کی شہادت کا ہے۔ چار جنوری کو قم المقدس میں ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے تکریم شہداء کانفرنس منعدق کی گئی۔ مجھے شہید اعتزاز حسن کے حوالے سے اس کانفرنس کا پیغام بہت یاد آ رہا ہے۔ اب تک تکریم شہدا کانفرنس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ برادر سعید کاظم ، محترم محمد علی شریفی، رفیق انجم اور ایم اے راجپوت صاحب نے مختلف اور اہم زاویوں کا احاطہ کیا ہے۔کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر یقیناً مزید تحریریں ابھی راستے میں ہوں گی۔ بہر حال جیسے ہر پھول کی اپنی منفردخوشبو ہوتی ہے اسی طرح ہر قلمکار کی بھی اپنی ہی مہک ہوتی ہے۔ہم بھی وہیں موجود تھے چنانچہ ہم نے جو دیکھا وہ بھی بیان کئے دیتے ہیں۔ کانفرنس کا آغاز برادر سید اقتدار شاہ نقوی صاحب نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت کلام الہی سے کیا۔بعد ازاں ہمارے دوست محمد رفیق انجم صاحب نے منقبت پڑھی پھر ترانہ شہادت کی سعادت برادر محترم سید مظہر مصطفوی نے حاصل کیا۔اس کے بعد ناظمِ کانفرنس کی دعوت پر برادر ذیشان حیدر جوادی نے بھی شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔تکریم شہداء کانفرنس کی جان تقریب کے مہمانِ خصوصی کا خطاب تھا۔ مدارس دینیہ بحرین کے مدیر حجة السلام والمسلمین علامہ شیخ الدقاق مدظلہ نے ' بطورِ مہمان خصوصی انتہائی اہم اور فکر انگیز گفتگو کی۔ انہوں نے "شہادت کو مکتب میں بدلنے کے خطوط" کے موضوع پر خطاب کے آغاز میں حاج قاسم سلیمانی کے مزار پر حالیہ شہید ہونے والے افراد کیلیے خصوصی فاتحہ خوانی کرائی اور ملت اسلامیہ کو تسلیت و تعزیت پیش کی۔ آپ نے کہا کہ شہید عارف حسین الحسینیؓ، شہید سید عباس موسوی،شیخ احمد یٰسین وغیرہ شہادت سے پہلے تک محض افراد تھے ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 30 تاريخ : يکشنبه 17 دی 1402 ساعت: 14:37

سالِ نو! یہ نسلِ نو پوچھ رہی ہےاز ✒️:ابراہیم شہزاد9 مئی کا دن بھی کیا دِن ہے!۔ ہماری ملکی تاریخ میں بدترین آئین شکنی کا دن۔ اس روز ریاستی اداروں کو نذر آتش ، مسمار اورہمارے قومی ہیروز کے مجسموں کو پاش پاش کیا گیا۔ بعدازاں سرکاری ادارے حرکت میں آئے۔ سینکڑوں ملزم جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے بند کر دیے گئے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ بھلا ریاست اور ملک کی آئین شکنی کوئی معمولی بات تھوڑی ہے کہ جس پر خاموش رہا جائے۔ 9 مئی کو جن لوگوں نے پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچایا وہ سب سزا کے مستحق ہیں لیکن صرف 9 مئی کے مجرموں کو ہی سزا کیوں؟ہر وہ دن جس میں پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو وہ بھی 9 مئی کی طرح قابل افسوس اور قابل مذمت ہونا چاہیے اور 9 مئی کے ملزموں کی طرح ہر وہ شخص مجرم ہے جو پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ایک انسان کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے اگر اغوا کر لیا جائے اور سالوں سال غائب رکھا جائے تو کیا یہ جرم ۹ مئی سے کم ہے؟۔کہا جاتا ہے کہ "موت کے بعد بچھڑنے" سے کہیں زیادہ دکھ، "موت سے پہلے بچھڑنے والے" کا ہوتا ہے کیونکہ بچھڑنے والے کی واپسی کی آس اہلِ خانہ کو سولی پر لٹکائے رکھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لواحقین کو اس اغوا شدہ شخص کا کہیں ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسنگ پرسنز کی بات کرنے والوں کو بھی سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔اب سیکورٹی کے حوالے سے ملکی فضابالکل فلسطین اور مقبوضہ کشمیر جیسی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو سرگوشیاں شوربن جاتی ہیں، سکوت نقارہ بن جاتا ہے، زنجیر اور رسن کے خدشے ختم ہو جاتے ہیں۔لگتا ہے کہ وہ ریاست جوماں ہوتی ہے وہ تو اپنا وجود کھو چکی ہے۔ بلوچستان کے لوگ اب ماں (ریاست) کے پاس اپنی شکایات لے کر اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 36 تاريخ : دوشنبه 11 دی 1402 ساعت: 13:59

سقوطِ ڈھاکہ کا ایک ورق✍️ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا تھا ۔ یہی وہ دن ہے کہ جب پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے جنرل'>جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک کر ہندوستان سے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اس موقع پر مجھے وہ تاریخی طعنہ یاد آرہا ہے جو مُکتی باہنی کے بانی جنرل عطأ الغنی عثمانی نے جنگ کے خاتمے کے بعد جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو دیا تھا۔اس طعنے کے پسِ منظر کو جاننے کی ضرورت ہے۔فاتحِ بنگال جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ 1916ء میں جہلم کے قصبے کالا گوجراں، متحدہ پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ 1939ء میں اُنہوں نے برِٹش انڈین آرمی جوائن کی اور جنگِ عظیم دوئم میں برما کے محاذ پر لڑے۔1971ء میں وہ ہندوستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے جب اُنہیں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کا حکم ملا۔ میجر عطأالغنی عثمانی کا جنم 1918ء میں سلہٹ، مشرقی بنگال میں ہوا اور دوسری جنگِ عظیم میں وہ ایک برطانوی مکینیکل ٹرانسپورٹ بٹالین کا حصہ تھے۔ تقسیم کے بعد عثمانی پاکستانی فوج میں شامل ہو گئے۔1947ء میں عثمانی کشمیر کے محاذ پر ہندوستانی افواج کے خلاف لڑے لیکن اُن کی بہترین خدمات 1965ء کی جنگ میں سامنے آئیں جب اُنہوں نے اپنی اعلیٰ عسکری کارکردگی کے باعث ستارۂ جرأت اور تمغہ جرأت سمیت 17 تمغے حاصل کیے۔1970ء کے قومی انتخابات میں عوامی لیگ کی جیت کے باوجود جب اُس وقت کے فوجی حکمرانوں نے اقتدار شیخ مُجیبُ الرحمان کو نہ سونپا بلکہ الٹا بنگالیوں کو غدّار کہہ کر اُن کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا تو ایسے میں مشرقی پاکستان میں جب کشیدگی شروع ہوئی تو میجر عثمانی نے اپنی ہمدردیاں بدل لیں اور اُنہوں نے فوج سے مُنحرف ہو کر بنگال میں ایک باغی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام آگے چل کر ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 34 تاريخ : يکشنبه 3 دی 1402 ساعت: 13:18